مہاجرین جموں وکشمیر مقیم پاکستان کے لیے آزاد جموں وکشمیر اسمبلی میں مختص 12 نشستوں اور حکومتی اداروں کی ملازمتوں میں 25٪ کوٹہ کے خاتمے کا مطالبہ: فوائد ، مضمرات اور حل، عوامی اقتدار اعلیٰ کی بحالی کا فارمولہ۔ سردار آفتاب خان
مہاجرین جموں وکشمیر مقیم پاکستان کے لیے آزاد جموں وکشمیر اسمبلی میں مختص 12 نشستوں اور حکومتی اداروں کی ملازمتوں میں 25٪ کوٹہ کے خاتمے کا مطالبہ: فوائد ، مضمرات اور حل، عوامی اقتدار اعلیٰ کی بحالی کا فارمولہ۔
تحریر سردار آفتاب خان
ایوان سیاست نے دربار غلامی کو سجا رکھا
ہے،
حریت کی زبان پر پہروں کو بٹھا رکھا ہے،
کشمیر کیوں نا میں تجھے ماں کی طرح
چاہوں،
جس نے برسوں سے میرا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔
آج کل آزاد جموں وکشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کی توسیع اور اس چارٹر آف ڈیمانڈز میں سے ایک اہم نئی ڈیمانڈ، مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں مختص 12 نشستوں کے خاتمے کے مطالبہ کو لے کر عوامی سطح پر خوب بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔
ان نشستوں پر خصوصاً 1990 کے بعد منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی کے غیر ذمہ دارانہ کرداروعمل اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کی آزاد کشمیر میں سیاسی فرنچائزز کے ذریعے حکومتی عدم استحکام ، عوامی استحصال ، ریاستی وسائل کی لوٹ مار اور مہاجرین مقیم پاکستان کی فلاح وبہبود کے لیے مختص فنڈز میں خورد برد اور کرپشن میں لنچ پن کردار ادا کرنے کی وجہ سےیہ ممبران اسمبلی اپنے حقیقی ووٹرز اور خلائی مددگاران اور آزاد کشمیر کے اندر بسنے والے عوام میں اپنی عزت و احترام اور اعتماد کھو چکے ہیں ، اور اب یہ آزاد کشمیر کے پارلیمانی نظام حکومت کے وجود میں عمومی طور پر ایک کینسر زدہ عضو معطل سمجھے جانے لگے ہیں۔ ان ممبران اسمبلی کا کردار گزشتہ تین عشروں میں آزاد کشمیر سے منتخب ہونے والے اکثر ممبران اسمبلی سے کوئی زیادہ مختلف تو نہی، البتہ آزاد کشمیر کے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں ان کا استعمال بطور بارگینگ چپس زیادہ آسانی اور کم قیمت پر ہوتا ہے۔
اس لیے عوامی ایکشن کمیٹی نے ان ممبران اسمبلی کے منفی کرداروعمل کی بنیاد پر جو ان کی نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے اور جن سنگین بد عنوانیوں اور آزاد کشمیر کے عوام کے حق حکمرانی اور حاکمیت اعلیٰ کو گروی رکھنے کی سہولت کاری میں اہم کردار ادا کرنے کے حوالے سے جن امور کو اجاگر کیا ہے وہ فوری توجہ اور حل طلب ہیں۔ البتہ اپنے بنیادی مطالبہ، مہاجرین مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں 12 نشستوں کے خاتمے کے لیے، ایکشن کمیٹی اور قوم پرست جماعتوں کے بعض راہنماؤں نے جو باشندہ ریاست ، رائے شماری اور دو نسلوں کے بعد ریاست باشندہ کی حیثیت ختم ہونے کی متنازعہ تشریح پر مبنی تاویلات پیش کرنا شروع کی ہیں ۔ اگر ان تاویلات کو راہنما اصول مان کر یہ نشستیں ختم کی جاتی ہیں تو پھر متاثرین منگلا ڈیم اور آزاد کشمیر کے وہ لوگ جو گزشتہ دو نسلوں سے راولپنڈی اسلام آباد یا پاکستان کے دیگر شہروں اور بیرون ملک آباد ہیں ان میں سے بھی کوئی پچیس، تیس سال بعد آزاد کشمیر اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے بطور امیدوار کھڑے ہونے یا ووٹ دینے کا اہل نہیں رہے گا۔ اور یہ خدشہ ہے کہ ان سیاسی دوراندیشی سے عاری، نا سمجھی اور کسی حد تک کج فہمی پر مبنی تاویلات کو بنیاد بنا کر بیرون ریاست آباد لوگوں میں سے کئ ایک کو اپنے رشتہ دار ہی اگر وہ ان سے مختلف سیاسی نظریہ یا امیدوار کی حمایت کرنا چاہتے ہوں تو اپنے آبائی پولنگ سٹیشن پر ووٹ نہیں ڈالنے دیں گے اوراپنی خاندانی وراثتی جائیدادوں کے انتقال میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں گے۔
باشندہ ریاست درجہ اول کی حیثیت کے دو
نسلوں کے بعد خاتمے کی جو من گھڑت لفظی تشریح، نا سمجھی، کج فہمی اور ریاست کی
متنازع حیثیت اور اقوام متحدہ کے چارٹر ، سول اور پولیٹیکل رائٹس اور رائے شماری
میکانزم کی نزاکت کو سمجھے بخیر کی جا رہی ہے اس کو مہاجرین کی اسمبلی نشستوں کے
خاتمے کے مطالبہ سے جوڑنے کے بھیانک نتائج ہو سکتے ہیں۔
مہاجرین جموں و کشمیر ، متاثرین منگلا
ڈیم اور قدرتی آفات اور آزاد کشمیر کے علاقوں سے مستقل طور پر جاکر پاکستان میں
سکونت اختیار کرنے والے یا سمندر پار مستقل رہائش پزیر تمام لوگ باشندہ ریاست درجہ
اول کی بنیاد پر یکساں طور پر ریاست کے شہری ہیں اوربرابری کے آئینی، قانونی،
سیاسی اور ریاستی شہر ی حقوق رکھتے ہیں ۔
جب تک مسلہؑ جموں وکشمیر مستقل بنیادوں پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل
کی قرار دادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق محکوم اقوام کی آزادی کے لیے
تسلیم شدہ حق خودارارادیت کے اصول کے تحت حل نہیں ہوجاتا، ریاست جموں و کشمیر کے
وہ تمام باشندے جو انیسو سینتالیس میں ریاستی باشندہ اول کی حیثیت رکھتے تھے
وہ اوران کی آنے والی نسلوں کے تمام
افراد جن کے پاس باشندہ ریاست کے حصول کی بنیاد موجود ہے یا ہو گی ریاستی باشندہ
درج اول ہیں ، رہیں گے اور ہم اور ہماری آنے والی نسلیں قیامت تک اپنے اس ریاستی
درجہ اول کی حیثیت کو برقرار رکھے جانے کے حق سے دست بردار نہیں ہوں گے ۔ لہٰذہ ریاستی
باشندہ درجہ اول کی حیثت کو متنازعہ بنا کر ان نشستوں کے مکمل خاتمے سے جوڑنا کم
علمی اور سیاسی کم عقلی ہے۔
ریاست جموں کشمیر میں آزاد جموں کشمیر ہی واحد ایسا علاقہ رہ گیا ہے جہاں یہ باشندے اپنے ریاستی شہری حقوق کا دعوٰی کر سکتے ہیں یا اس دعوٰی کی بنیاد پر ان کی سیاسی جماعتیں، تنظیمیں اور حکومت آزاد کشمیر، پاکستان یا بیناالاقوامی معاہدوں، مزاکرات اور مسلہ کشمیر کے مستقل حل کے ہونے والے ڈائیلاگ میں لیڈرشپ رول میں شریک ہو سکتے ہیں۔ یکم اگست ۲۰۲۵کو ایک پریس کانفرنس میں ایکشن کمیٹی کے راہنماوں نے آزاد کشمیر حکومت کے کردار اور اس حکومت کے قیام پرچوبیس اکتوبر انیسسو سنیتالیس کو جاری کردہ علامیہ کے پوٹینشل کی بنیاد پرریاست جموں کشمیر کے عوام کی نما ؑنیندہ حکومت تسلیم کیے جانے کے مطالبے کو حقیقت کا روپ دینے کا مطالبہ کرنے اور اس مقصد کے لیے شعوری اور سیاسی جدوجہد کی راہنمایؑ کے اصول وضع کرنے کے بجاؑے حکومت آزاد جموں کشمیر کو ایک محدود علاقے کی لوکل اتھارٹی کے طور پر سمجھے اورٹریٹ کیے جانے کی تشریع اور بیانیہ بنانے کی جو توجیعہات گھڑنی شروع کر دی ہیں وہ وزارت امور کشمیر اور اسٹیبلشمنٹ کی توجیعہ، تشریع سے تو مطابقت رکھتی ہے آزاد جموں کشمیر حکومت کے پوٹینشل اور با شعورعوام کے امنگوں کی ترجمانی نہیں ہیں۔
آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین کی۱۲نشستون کی غیرضروری زیادہ تعداد کی کمی اور ان کی تعداد کو سیاسی اور آؑینی نمائندگی کو ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق منصفانہ تعین اورتبدیلی کا درست اور جا ؑیز مطالبہ کرنے اور کوؑی قابل عمل فارمولہ دینے یا تلاش کرنے کے بجائے، ان نشتوں کے مکمل خاتمے کا مطالبہ سیاسی ھیجان خیزی، مہاجر اور مقامی کے نفرت بھری پاپولسٹ سیاست اور کچھ لوگوں کے لیے آزاد کشمیر حکومت کو ما ئینس کر کے ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست مزاکرات کرنے کا دلکش سراب تو ہو سکتا ہے لیکن ہمارے مصائب اور عوامی حاکمیت اعلیٰ کی بحالی کا کویؑ مستقل حل نہیں۔
یاد رکھیں کہ ماضی قریب میں ایسے ہی عوامی حمایت کے خمار میں مبتلا مقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس کے راہنماوں نے دہلی سرکار سے براہ راست بات چیت اور جموں کشمیر حکومت اور اس کے نطام حکومت کو بلکل ماؑینس کر کے جس ھیجان خیز سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اس کا آج نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو جموں کشمیر اسمبلی رہی، نہ حریت کانفرنس کہیں نطر آتی ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کے لیے کوی سپیس۔ آج کل وہ سب جو کبھی جموں کشمیر کی مکمل آزادی، خودمختاری یا الحاق پاکستان کے نعرے مارتے تھے اور آےؑ روز ہڑتالیں کرتے تھے وہ سب مسلہؑ جموں کشمیر کے حتمی حل اور راےؑ شماری کے انعقاد سے قبل وقتی طور پر ھندوستانی آ ؑیین کی دفعہ تین سو ستر اور ۳۵۔اے اور جموں کشمیر اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کرتے پھرتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کے ہم آزاد کشمیر میں ایک طویل عوامی اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے حکومتی ڈھانچے ، اسمبلی اور اداروں میں موجود خرابیوں، عوامی حق حکمرانی کے حصول میں حائل رکاوٹوں، کمی اور خامیوں کو دور کرنے کی قابل عمل سیاسی اور آہؑینی تبدیلی کی جدوجہد اسی تسلسل کے ساتھ کریں جیسا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی لازوال جدوجہد اور حکمت عملی کے تحت ہم نے گزشتہ دو سالوں میں کیا ہے۔
آزاد کشمیر میں موجودہ حکومتی ڈھانچہ
اگرچہ چوبیس اکتوبر انیسو سینتالیس کوجاری ہونے والے آزاد حکومت ریاست جموں
وکشمیر کے علامیہ سے مکمل طور پر کمہ حق وہو( لیٹر اینڈ سپرٹ) میں مطابقت تو نہیں
رکھتا، لیکن موجودہ عبوری آئین ایک سطح پر آزاد کشمیر کی حد تک انتظامی معاملات
چلانے اور علامتی طور پر پاکستان سے جُداگانہ ریاستی اور حکومتی شناخت کا مظہر
ہیں۔
آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین جموں وکشمیر، متاثرین منگلا ڈیم اور آزاد کشمیر سے مستقل طور پر مقیم پاکستان ریاستی شہریوں اور اوورسیز کشمیریوں کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نمائندگی اس اسمبلی اور آزاد کشمیر حکومت کی جدا گانہ شناخت اور وجود برقرار رکھنے کے لیے ایک سٹریٹیجک اثاثہ ہیں۔ البتہ ان کی موجودہ تعداد، حلقہ بندی اور طریقہ انتخاب آزاد کشمیر اسمبلی کے آزاد کشمیر کی حدود میں موجود ایک حلقہ انتخاب کے لیے مختص آبادی اور رجسٹرڈ ووٹوں کے الیکشن ایکٹ میں طے شدہ اصول سے مسابقت نہیں رکھتا، اس لیے ان نشستوں کی تعداد، حلقہ بندی اور طریقہ انتخاب کا ازسر نو تعین عوامی سیاسی حقوق و پارلیمانی نماؑیندگی کے لیے طے شدہ طریقہ انتخاب اور حلقہ بندی کے اصول مساوات کی بنیاد پر دوہزار چھبیس کے الیکشن سے قبل ازثر نو ہونا اشد ضروری ہے اور یہی ان نشتوں کے وجود اور از سر نو حلقہ بندیوں اور کل تعداد کے تعین کا جواز اور بنیاد ہونی چا ہیے۔
راقم نے مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں
کے مکمل خاتمے کے مطالبہ کا عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیماند میں ایک اہم نئےمطالبہ
کے طور پر شامل ہونے کہ بعد اس مطالبہ کے خلاف مہاجرین کے نام پر پاکستانی سیاسی
جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی تکنیکی مدد سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی کی الزام
تراشی پر مبںی پریس کانفرنس ، جناب عثمان عتیق صاحب کی جزباتی تقریر، آزاد کشمیر
حکومت کے ترجمان کے پالیسی بیان اور جموں کشمیر کونسل براےؑ انسانی حقوق کے سربراہ جناب ڈاکٹر ںزیر گیلانی صاحب کے
مضامین اور سوشل میڈیا پوسٹس، جناب خواجہ حسن معمود صاحب کے سیاسی اور شعوری
سوالات اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبے کے حق میں ڈاکٹر جاوید حیات صاحب کے مضبوط
دلائل، جناب بشیر سدوزئ صاحب کے مختصر اور جامع مضمون، کشمیر فریڈم موومنٹ کے
سیکرٹری جنرل جناب محمد شفیق کیانی اور انجینئر افضل ضیاؑی صاحب اور کینیڈا میں
مقیم کشمیری سیاسی راہنما سردار ممتازخان صاحب اور دیگر سوشل میڈیا پر متحرک سیاسی
ایکٹیوسٹس کے تبصروں کا بغور مطالعہ کیا
ہے اور ان کے تبصروں اور بیانات کا تمام پہلوووؑں سے جائزہ لینے کے بعد اس مضمون
کا ایک ابتدائی ڈرافٹ لکھ کر آزاد کشمیر سے میرے نیٹ ورک میں موجود چییدہ چیدہ
افراد جن میں سابق ممبر اسمبلی اور وزیر حکومت محمد افسر شاہد ایڈووکیٹ، شمس
رحمان، سید عاصم مسعود گیلانی ایڈووکیٹ، پروفیسر مسعود خان، انجینئر خالد پرویز بٹ
اور آزاد کشمیرحکومت کے سینیؑر اہلکاران اور ممتاز صحافی جناب ذولفقار علی صاحب
سے فیڈ بیک لی۔
راقم اپنی دانست، قومی اور بین الاقوامی سیاسی اور برطانیہ میں مقامی حکومتوں کی گوورننس چینج مینجمنٹ کے تجربہ کی بنیاد پر ان نشستوں کی منصفانہ اور مساویانہ تعداد اور حلقہ بندی کے ازسرنو تعین کے لیے درج ذیل ایک واضع، قابل عمل سائنٹیفک سیاسی، قانونی اور آئینی فارمولا پیش کررہا ہے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز ان نشتوں کی غیر ضروری تعداد، حلقہ بندی اور ان پر منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی کے طریقہ انتخاب اور ممبران اسمبلی کے غیر زمہ دارانہ کردار کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں، نفرتوں، قدورتوں اور ان سے جڑے تمام مسائل کو منصفانہ اور مستقل بنیاد پر درج ذیل " عوامی اقتدار اعلیٰ کی بحالی فارمولہ" کی بنیاد پر حل کر سکیں۔
مہاجرین کی نشستیں = ( کل رجسٹرڈ ووٹر مہاجرین جموں و کشمیر ، متاثرین منگلا ڈیم و دیگر مقیم پاکستان ÷ کل رجسٹرڈ ووٹرز آزاد جموں کشمیر ) × 45
Refugee seats = (Total registered
refugee voters in Pakistan ÷ Total registered voters in AJK) × 45
آزاد جموں کشمیر اسمبلی میں عوامی
نمایؑندوں کے انتخاب کے لیے اصول مساوات کے تحت حلقہ بندی کے اس نئے اور قابل عمل "فارمولہ"کے تحت مہاجرین جموں و کشمیر ، متاثرین منگلا ڈیم و
دیگر مقیم پاکستان کی آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے لیے مختص حلقہ بندیوں اور ممبران
کی تعداد چار یا پانچ ممبران اسمبلی بنتی ہے۔ اور اسی اصول کو مدنطر رکھتے ہوئے ان
پانچ نشستوں میں سے دو نشتیں وادی کشمیر اور تین نشستیں جموں اور دیگر ریاستی شہری
مقیم پاکستان کو دی جانی چاہیں۔ ان نشستوں
پر انتخاب براہ راست بھی ہو سکتا ہے اگر آزاد کشمیر الیکشن کمیشن ، پاکستان
الیکشن کمیشن کے تعاون سے آزادانہ اور شفاف الکشن کرانے کے لیے درکار وسائل اور
انتظامات کر سکے، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوتوپھر آزاد کشمیر کی پارلیمانی جماعتیں
ان نشستوں پر انتخاب متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت نامزد کردہ لسٹ کی بنیاد پر
کر لیں۔ جس طرح خواتین اور دیگر مخصوص نشستوں پر ہوتا ہے۔ اسی طرح اوورسیز
کشمیریوں کے لیے مختص نشستوں کے لیے اسی اصول کے تحت نشستیں مختص کی جاسکتی ہیں۔ مہاجرین
کی نشتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے ازسرنوتعین کے نتیجے میں بچ جانے والی سات
نشستوں میں سے تین نشستیں ۲۱ سے ۳۰ سال کے نوجوانوں، ۲ معزور افراد اور دو نشستیں
لداخ اور گلگت بلتستان کے لیے مختص کر کے آزاد کشمیر اسمبلی کو آزاد جموں وکشمیر
حکومت کے قیام کے اولین علامیہ کے مقاصد سے ہم آہنگ کر کے اس کے ممبران کے کوڈ آف
کنڈکٹ اورآینی ذمہ داریوں اور سیاسی و سفارتی کردار کا ازسرنو تعین کیا جانا اشد ضروری
ہے۔
اس لیے آزاد جموں کشمیر عبوری آئین اور الیکشن ایکٹ میں فوری ترمیم اورایک حلقہ بندی کمیشن کے تشکیل ضروری ہے جو آزاد کشمیراسمبلی کے تمام حلقوں کے لیے مساویانہ رجسٹرڈ ووٹر کا آبادی کی بنیاد پر ازسرنو تعین کرے۔
آزاد جموں کشمیرمیں عوامی ایکشن کمیٹی
اوروہ تمام لوگ جو ان نشتستوں کے مکمل خاتمہ کے مطالبہ کی حمایت یا اس کی ٘مخالفت کر
رہے ہیں ان کو اپنے اپنے رویہ اور مطالبے کے دور رس مثبت اور منفی اثرات کا از ثر
نو جا یؑزہ لیتے ہوؑے مندرج بالا فارمولہ کے تحت اپنی اپنی پوزیشن پر نظرثانی کرنا
ہو گی۔ میری ایکشن کمیٹی کے راہنماوؑں سے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تصحیح اور ترمیم کی
درخواست ہو گی۔ ایکشن کمیٹی کی قیادت اور اس کے جا نباز کارکنان اور عوام کی
اکثریت عملیت پسند اور مشاورتی عمل پریقین رکھنے اور بہتر الٹرنیٹو نکتہ نظر اور
حکمت عملی اختیار کرتے ہوے آگے بڑھنے والوں اور قومی مقاصد کے لیے قربانی دینے
والوں پر مبنی ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک اور احساس کرنا ہو گا کہ اگرہم ان نشستوں
کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں یا ان کی جوازیت پر سوال اٹھاتے ہیں تو
پھر ہم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور وزارت کشمیر اور گلگت بلتستان کو خود بہ خود یہ
موقع اورجواز فراہم کرتے ہیں کہ وہ آزاد کشمیر کو بھی گلگت بلتستان کی طرح عبوری
صوبہ بنا دیں یا پھر گلگت بلتستان کے رہنے والے ریاستی شہریوں کی طرح آزاد کشمیر
کے شہریوں سے بھی ریاستی باشندگان کی حیثیت اور ان کی ریاستی باشندوں کے حیثیت میں
پروٹیکٹڈ حقوق محدود کر دیں یا چھین لیں، یا بھارت کی طرح آزاد کشمیر کے موجودہ
حکومتی نظام کو مکمل طور پر ختم کر دیں، اسے ایک "لوکل اتھارٹی" بنا دیں
جیسے بھارت نے اب مقبوضہ جموں کشمیر اسمبلی کو بنایا ہوا ہے جہاں تمام اختیار
لیفٹینٹ گورنر کے پاس ہیں اور عمر عبداللہ کو دیوار پھلانگ کر ۱۳ جولایؑ کو مزار
شھہدا پر فاتح خوانی کے لیے جانا پڑتا ہے۔
ہمیں اس بات کا ادراک اور احساس کرنا ہو گا کہ جس ہائپر ایکٹو سیاسی انداز اور بیان بازی نے مقبوضہ کشمیر میں اسمبلی اور کسی حد تک ہی سہی ایک مقامی انتظامی حکومت کا خاتمہ کروایا ہے، کہیں ہم اب اس ایک مہاجرین کی نشتوں کے ایشو کو لے کراآزاد کشمیر حکومت کے علامتی اور مقامی انتظامی حکومتی نظام کو بھی ختم کرانے کی نادانستہ جوازیت فراہم کرنے میں مددگار ثابت نہ ہوجائیں ۔ اور جس طرح اب سب لوگ ھندوستانی آئین کی دفعہ تین سو ستر کی بحالی کے مطالبے کر رہے ہیں ہم آزاد کشمیر حکومت ڈھونڈتے پھریں گے۔
ہمیں معروضی حالات ، زمینی حقائق اور
اندرون و بیرون ریاست درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ ریجنل اور عالمی سیاست کے اثرات کا
اپنے سیاسی نظریات و مطالبات پر اثر اور تعلق کا ادراک و احساس کرنا ہوگا ۔ ہمیں
خرابی کی بنیاد ان نشستوں کی تعداد کو ایک آدمی ایک ووٹ کے تحت آزاد کشمیر میں
حلقہ بندی کے اصول کے مساویانہ بنیاد پر ازسر نو تعین کرانے کی جدوجہد کو قانونی
اور سیاسی شعور کے تحت، حکمت اور تدبر سے ڈیل کرنا ہے۔
ہمیں حکومت آزاد جموں کشمیر کو اس کے قیام کے اصل مقصد اور علامیہ کے مطابق کردار و عمل کے فقدان پر چیلنج کرنا ہے اور آزاد کشمیر اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرتے ہوےؑ، قانون سازی اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل میں عوام اور سول سوسائٹی کی با اعتماد آواز عوامی ایکشن کمیٹی کی شرکت کو یقینی بنوانا ہے، اس لیے ہمارا بنیادی مطالبہ آزاد کشمیر میں عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم اور ریاست کے قدرتی وسائل( پانی ، بجلی، معدنیات ، جنگلات وغیرہ) اور مالی وسائل ( ذرہ مبادلہ، بنک، انڈسٹری ) پر حق ملکیت کی بحالی اور عوام کے اقتدار اعلیٰ کا حصول ہے۔ تاکہ ہم آزاد کشمیر کے قدرتی، اقتصادی اور انسانی وسائل کو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے 100 فیصد قابل استعمال لانے کے اختیارات آزاد کشمیرمیں ایک حقیقی جمہوری حکومت کو منتقل کرواسکیں ۔
ہم نے دو ہزار چھبیس کے الیکشن سے پہلے
ان ۱۲ نشتوں کے حوالے سے قابل عمل سیاسی اور قانونی حل نکالنا ہے، ہم نے ایک بار
پھر آزاد کشمیر میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کے نتیجے میں جاتی امرا (رائے ونڈ)،
لاڑکانہ اور بنی گالا سے اپنے لیے مسلط ہونے والے نئے چراغ بیگ نہیں لانے اور نا
ہی آزاد کشمیر کے طفیلی سیاست کاروں اور ان کے آقاؤں کو عوامی ایکشن کمیٹی کی
لازوال جدوجھد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شعور کے نتیجے میں سیاسی طور پر مکمل
طور پر غیر مؤثر ہونے سے بچانے کے لیے اور عوامی غیظ و غضب سے بچنے کا کوئی نادانستہ
موقع فراہم کرناہے۔ آزاد کشمیر اور مہاجرین
کی نشستوں پر منتخب ہونے والے موجودہ ممبران اسمبلی کی اکثریت پاکستانی سیاسی
جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پالتو پہو بچھڑوں کی طرح ہوچکی ہے، جو، جب چاہے رات کی
تاریکی میں انہیں ہانک کر کسی کو بھی وزیراعظم بنانے کے لیے ان کو ووٹ دینے پر
مجبور کر سکتا ہے۔ یہ صرف اپنی اور اپنے بچوں کی سیاسی قدی نشینی کے لیے ہر وقت،
ہر ایک قیمت پر تیار بیٹھے نظر آتے ہیں، اس لیے ان سے جان چھڑانے کی سیاسی اور
قانونی حکمت عملی بنانا اور اس پر عمل کرنا ازبس ضروری ہے۔
آزاد کشمیر کی آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے قائدین کو سیاسی چاند ماری کے بجائے جانکاری اور سیاسی حکمت عملی سے سٹریٹجک اور ٹیکٹیکل ایکشن پلان بنانا ہوگا اور جس طرف ہؤا چلنی شروع ہو جائے اسی سمت اپنے سیاسی و نظریاتی خیالات پننے شروع کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے قابل عمل سیاسی جدوجھد کرنا ہوگی۔
ہماری پہلی ترجیح آزاد کشمیر اسمبلی اورسرکاری ملازمتوں میں آبادی کے تناسب کے مغائر مہاجرین مقیم پاکستان کے لیے مختص 25٪ کے غیر مساویانہ اور غیر منطقی کوٹے کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ اور جس طرع میں نے مہاجرین کی نشستوں کا فارمولہ پیش کیا ہے اسی طرع اصول مساوات کے تحت مہاجرین کی کل آبادی کو آزاد کشمیر کی کل آبادی پر تقسیم کرتے ہوؑے کسی بھی محکمہ میں ریکروٹمنٹ کے لیے دستیاب کل تعداد سے ضرب دے کران کے لیے دستیاب ملازمتوں کا کوٹا مختص کیا جا سکتا ہے۔
مہاجرین جموں وکشمیر مقیم پاکستان،
متاثرین منگلا ڈیم اور آزاد کشمیر سے مستقل طور پر پاکستان میں سکونت اختیار کرنے
والے اور بیرون ممالک آباد تمام لوگ ہمارا سٹریٹجک اثاثہ ہیں، ان کی طاقت اور
صلاحیت کو استعمال کرنے کی تدابیر اور حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔
ہمیں آزاد کشمیر کے سسٹم آف گورننس اور
گورنمنٹ کی تبدیلی کی ضرورت و حقیقت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کو
مدنظر رکھتے ہوئے قابل عمل وحل اصول وضع کرتے ہوئے اپنی ریاست کے اندرون ریاست اور
بیرون ریاست پاکستان اور سمندر پار ممالک میں آباد تمام ریاستی باشندگان کے حقوق
اور فلاح وبہبود کے لیے سیاسی ، سفارتی اور مشاورتی حکمت عملی اختیار کرتے ہو ئے
ہر ایک سطح پر تمام سٹیک ہولڈرز سے ڈائیلاگ کرنے کے لیے مختلف شعبہؑ زندگٰی میں
کام کرنے والے تجربہ کار مرد و خواتین پر مشتمل ٹیم بنانا اورٹیم ورک کرنا ہے۔
تاکہ ہم اپنی اصل منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصراورعوامی قوت
اور اعتماد ہمارا اثاثہ ہے۔
مصنف کا تعارف:
سردار آفتاب خان کمیونٹی ڈیویلپمںٹ، پبلک پالیسی ایڈووکیسی اور لوکل گوورنمںٹ گوورننس چینج مینجمنٹ کے ماہر پالیسی ساز اور جموں کشمیر کے تمام خطوں میں عوامی مزاحمتی تحریک، فلاح وبہبود اور ترقی کے پراجییکٹ کے معاون اور مددگار کی حیثیت میں گزشتہ پینتیس سال سے زاید عرصہ سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان سے درج ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment