Skip to main content

آزاد کشمیر اسمبلی کی انتخابی حلقہ بندی میں عدم توازن — جمہوری مساوات کی بحالی کا وقت

 

 آزاد جموں کشمیراسمبلی میں سب کے لیے برابر نمائیندگی کا فارمولہ — مہاجرین کے لیے انتخابی حلقہ بندی کا منصفانہ حل

تحریر: سردار آفتاب خان

ریاست جموں و کشمیر کے اس حصے میں جہاں جمہوری اُمنگیں گہری جڑیں رکھتی ہیں، آزاد جموں و کشمیر (آزاد کشمیر) کی قانون ساز اسمبلی کا موجودہ ڈھانچہ ایک پریشان کن عدم توازن ظاہر کرتا ہے۔ مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے حلقے، اگرچہ تاریخی طور پر اہمیت رکھتے ہیں، لیکن ان حلقوں سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی اب آزاد کشمیر کے رہائشی آبادی کے منتخب ممبران اسمبلی کے مقابلے میں غیر متناسب نما ؑیندگی اور حکومت اور قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ عدم توازن فوری انتخابی اصلاحات کا متقاضی ہے۔

اعداد و شمار پر مبنی عدم مساوات

جمہوریت کا بنیادی اصول سیدھا سا ہے: ہر ووٹ کی حیثیت اور طاقت برابر ہونی چاہیے۔ لیکن آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) کی قانون ساز اسمبلی کا موجودہ انتخابی طریقہ کار اور اسمبلی ممبران کے لیے مختص حلقہ بندی اس اصول کی مکمل عکاسی نہیں کرتے۔

آزاد کشمیر اسمبلی میں 12 نشستیں مہاجرین مقیم پاکستان کے لیے مختص ہیں — 6 نشستیں پاکستان میں آباد وادی کشمیر کے مہاجرین کے لیے اور 6 نشستیں جموں و منگلا ڈیم سے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے ہیں۔ یہ 12 نشستیں کل 405,034 رجسٹرڈ ووٹروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کے برعکس، 33 نشستیں آزاد کشمیر کے 2,950,129 رہائشیوں کے لیے مختص ہیں۔

اعداد و شمار ایک واضح عدم توازن ظاہر کرتے ہیں

 ہر وادی کشمیر کے مہاجر رکن اسمبلی تقریباً 5,044 ووٹروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

* ہر جموں/منگلا رکن اسمبلی تقریباً 62,461 ووٹروں کی نمائندگی کرتا ہے۔

 ہر آزاد کشمیر میں رہائشی رکن اسمبلی تقریباً 89,397 ووٹروں کی نمائندگی کرتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وادی کشمیر کے مہاجر اراکین اسمبلی 1672٪ زیادہ نمائندہ وزن رکھتے ہیں، اور جموں/منگلا ڈیم متاثرین و دیگر کے اراکین اسمبلی آزاد کشمیر کے رہائشی اراکین سے 43٪ زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار کی بات نہیں — یہ ایک ایسی بنیادی سقم اوراسمبلی میں ساختی بگاڑ ہے جو عوامی نمائیندگی کے اصول جمہوری مساوات کو سخت نقصان پہنچاتا ہے۔

یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مہاجرین کے لیے مختص حلقے، خصوصاً وادی کے باشندوں والے حلقے، فی نشست بہت کم ووٹروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، مقامی رہائشی حلقے ایک نشست پر کئی گنا زیادہ ووٹروں کو نمائندگی دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ ووٹ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ کسی کمیونٹی کو دوسری کے مقابل کھڑا کرنے کا نہیں بلکہ انصاف، شفافیت اور عوامی اعتماد کا ہے۔

آئینی اصول اور حکومتی دباؤ

"ایک فرد، ایک ووٹ" کا اصول نمائندہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جب کچھ اراکین اسمبلی 17 گنا کم ووٹروں کی نمائندگی کریں، تو یہ نظام اس اصول کو پورا نہیں کرتا۔ ایسی غیر مساوی صورتحال اکثریت کی آواز کو کمزور کرتی ہے اور اقلیت کے اثر کو غیر متناسب طور پر بڑھاتی ہے، جس سے قانون اور حکومت سازی کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔

مزید برآں، آزاد کشمیر کے رہائشی اراکین پر حکومتی ذمہ داری کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ تقریباً 90,000 ووٹروں کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ جواب دہی، خدمات کی فراہمی اور پالیسی وکالت میں بڑے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں، جبکہ مہاجر اراکین — جو بہت کم آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں — قانون سازی اور وسائل کی تقسیم پر غیر متناسب اثر ڈال سکتے ہیں۔

یہ عدم توازن عوامی اعتماد کو مجروح کرنے، معاشرتی تناؤ بڑھانے اور اسمبلی کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کا خطرہ رکھتا ہے۔ اسی لیے جموں کشمیر جوائیںٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے انتہائی اقدام کے طور پر مہاجرین مقیم پاکستان کے لیے مختص نشتوں کے مکمل خاتمے کے مطالبے کو اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل کیا ہے، جس سے یہ مسلئہ عوام میں بھرپور طریقہ سے اجاگر ہوا ہے اور اس پر ہر ممبران اسمبلی، قانونی ماہرین، سیاسی زعماؑ اور خاص و عام اپنی اپنی آراؑ اور تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ راقم اس مسلئہ کے باوقار اور قابل عمل حل کے لیے بامعنی مکالمہ کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے درج ذیل فارمولہ پیش کر رہا ہے۔

مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کی نشتوں کی حلقہ بندی میں اصلاح کے لیے منصفانہ فارمولا 

جمہوری توازن بحال کرنے کے لیے متناسب نمائندگی کا ماڈل اپنانا ضروری ہے۔ ایک شفاف اور منصفانہ فارمولا قانون میں شامل کیا جانا چاہیے، جو اس طرح ہو 

نشستوں کی تقسیم کا فارمولا 

 مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے مختص نشتوں کی حلقہ بندی میں عدم توازن ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ

۱۔ تمام نشستوں کی تقسیم کا ایک ہی معیار ہو رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ہو۔

 ۲۔ نشستوں کا حساب “لارجسٹ ریمینڈر” (ہملٹن) طریقے سے کیا جائے، جو دنیا بھر میں رائج ایک منصفانہ فارمولہ ہے۔

۳۔ مہاجرین کی نمائندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اگلے عام انتخابات ۲۰۲۶ تک کم از کم پانچ نشستوں کی ضمانت دی جائے، اس کے بعد سخت تناسبی فارمولا لاگو ہو۔

 حلقہ بندی کمیشن کے لیے لازمی ہو کہ وہ ووٹروں کے اعداد و شمار، نشستوں کا حساب، نقشے اور وجوہات شائع کرے، اور 30 دن کے عوامی اعتراضات کا موقع دے۔

 اعداد و شمار کی روشنی میں

 کے اعداد و شمار کے مطابق 2022

 آزاد جموں کشمیر ہائشی ووٹرز: 29,50,129

 مہاجر ین ووٹرز: 4,05,034

کل  نشستیں: 45

فارمولے کے مطابق مہاجرین کا حصہ تقریباً پانچ نشستیں اورآزاد جموں کشمیر رہائشیوں کا حصہ تقریباً چالیس نشستیں بنتا ہے۔

آزاد جموں کشمیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کیوں ضروری ہے؟

آزاد جموں کشمیر الیکشن ایکٹ  کی دفعہ 2 میں تعریفیں واضح کرنا، دفعہ 9 میں نشستوں کو ووٹروں کے تناسب سے منسلک کرنا، دفعہ 16 میں کمیشن پر فارمولا لاگو کرنے کی قانونی ذمہ داری ڈالنا، اور دفعہ 17 میں نشستوں کی تقسیم کا فارمولا شامل کرنا ضروری ہے۔  

 آزاد جموں کشمیر اسمبلی میں مہاجرین نشتوں کا مسلئہ حل کرنے کے لیے مکالمہ ہی واحد راستہ ہے

یہ معاملہ کسی سے نمائندگی چھیننے کا نہیں بلکہ سب کے ووٹ کی برابر قدر یقینی بنانے کا ہے۔ مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کمیونٹی کو یقین دہانی کرانا، آزاد جموں کشمیرکے مستقل رہائشیوں کو اعتماد دینا اور پالیسی سازوں کو قائل کرنا کہ یہ اصلاح اسمبلی کی ساکھ کو مضبوط بنائے گی، او یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

آئیں، ہم سب مل کر ایسا نظام قائم کریں جو منصفانہ، شفاف اور مساوی ہو — تاکہ مظفرآباد اور پونچھ کے پہاڑوں سے لے کر میرپور اور بھمبر کے میدانوں، اور راولپنڈی، لاہور، سیالکوٹ، کراچی اور کوئٹہ کی کشمیری مہاجر بستیوں تک ہر ووٹر کی آواز یکساں سنی جائے۔

سچی جمہوریت کا پیمانہ صرف ووٹ ڈالنے کا حق نہیں بلکہ اس ووٹ کا وزن بھی ہے۔ آزاد کشمیر کو اپنے انتخابی ڈھانچے کو اس طرح دوبارہ ترتیب دینا چاہیے کہ وہ انصاف اور قانونی حیثیت کو یقینی بنائے۔

اصلاح کا وقت آ چکا ہے — نہ صرف عددی عدم توازن کو درست کرنے کے لیے بلکہ آزاد جموں کشمیر اسمبلی کی جمہوری سالمیت کو مضبوط کرنے کے لیے۔

مصنف کا تعارف: سردار آفتاب خان مقامی حکومتوں کی آئینی اور قانونی پالیسی سازی اوراس کے عملدرآمد کے ماہر اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں، اور گزشتہ ۳۵ سال سے زیادہ عرصہ سے آزادکشمیر، پاکستان، امریکہ اور برطانیہ میں عالمی اداروں اور حکومتی، ترقیاتی اور پرائیویٹ اداروں کے لیے کنسلٹنٹ کی خدمات سر انجام دیتے آرہے ہیں۔ ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے،

Aftab@kdfuk.org

Dated: 14 August 2025

Comments

Popular posts from this blog

#FreeYasinMalik Campaign - Yasin Malik's Biography, Political Evolution, and Civil Resistance.

  Prime Minister’s Office (2006) Introduction Yasin Malik, born in Srinagar in 1966, has emerged as one of the most influential leaders in Kashmir’s struggle for freedom and political rights. His journey captures the transition of Kashmiri resistance from the revolutionary phase of the late 1980s to a movement increasingly shaped by civil resistance and international advocacy. His lifelong struggle embodies Kashmir’s dynamic history and the resilience of its people’s aspirations for independence, territorial integrity, national unity, and liberation from colonial domination and foreign occupation by all available means, including armed struggle (United Nations General Assembly, 1983). Malik’s path spans youthful activism in the tumultuous streets of Srinagar to his engagements with Indian and Pakistani prime ministers, international mediators, and leading human-rights organisations, underscoring his recognition as a legitimate political actor. Renowned as Chairman of the Jammu ...

A New Dawn for Jammu and Kashmir: Why the UN Must Lead a Multilateral Path to Lasting Peace

A New Dawn for Jammu and Kashmir: Why the UN Must Lead a Multilateral Path to Lasting Peace.  By Sardar Aftab Khan   London, July 2025 – Seventy ‑ seven years after the first ceasefire drew the line across Jammu & Kashmir, the bitter legacy of partition still haunts its mountain passes and river valleys. Civilians on both sides of the Line of Control live under heavy military shadow, even as hopes for resolution flicker in the chilly night air. It’s time, argues Sardar Aftab Khan of the Jammu Kashmir Council on Foreign Affairs (JKCFA) , to break this cycle—not through bilateral brinksmanship, but by harnessing the full weight of United Nations multilateralism. From Frozen Conflict to Transformative Process Since 1947, conflicts over the former princely state have cost countless lives, displaced families, and bred a siege mentality that stifles voices of moderation. Traditional diplomacy has treated Jammu and Kashmir like a problem to be “settled”—with ceasefires, plebiscit...